Writer Name : Palwasha Safi
Category : Love Story Based Novel
زاویہ
نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیچھے سے اس کا کوٹ تھاما اور چئیر کی پشت پر ڈالتے
اس کے گردن کے گرد بازووں کا حلقہ بنایا۔ "تم
وقت نکالو۔۔۔۔۔ اہمیت ہم خود بنا لیں گے۔۔۔۔۔" وہ اس کے تھیکے نین نقش کو دیکھتی
مسکرائی۔ ذیش اسے ہٹانے لگا تھا کہ اسی اثناء کیبن کا دروازہ کھلا اور عشفال اندر
داخل ہوتی نظر آئی۔ سامنے کا منظر دیکھ کر وہ کچھ پل کے لیے حیرت زدہ ہوگئی تھی۔ ذیش
کے تاثرات بدل گئے پر اس سے پہلے زاویہ اشتعال میں آتی آگے ہوئی۔ "تمہیں کسی نے سیکھایا نہیں ہے دستک دے کر
کسی کے کیبن میں جاتے ہیں۔۔۔۔" وہ تند آواز میں بولی۔ "زاویہ۔۔۔۔۔"
ذیش کو اس کا عشفال پر ایسے چلانا برداشت نہ ہوا اس نے تیزی سے اسے پکارا۔ "بلکل سیکھایا ہے۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ شوہر کے کیبن
میں بھی دستک دے کر جانا ہے۔۔۔۔ یہ تو کہی بھی نہیں لکھا۔۔۔۔" عشفال با اعتماد
لہجے میں جواب دیتی ذیشان کے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی۔ بلا شبہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ
بہت جچ رہے تھے۔ اس کا جواب سن کر زاویہ شاہ شاک ہوگئی وہ آنکھیں پھیلائے کبھی ذیش
کو دیکھتی کبھی اس کے شانہ بشانہ کھڑی عشفال کو۔ اس کا اشتعال حیرانگی میں تبدیل ہوگیا۔
"واٹ۔۔۔۔۔۔
شوہر۔۔۔۔۔ ذیش کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔۔۔۔" زاویہ کے طیش میں اضافہ ہونے لگا۔
"شادی
نہیں بھی ہوئی پر۔۔۔۔۔ دین اسلام میں جب لڑکا اور لڑکی کا نکاح ہوجاتا ہے تو وہ
شوہر اور بیوی کہلاتے ہیں۔۔۔۔ تو اس لحاظ سے یہ میرے شوہر ہوئے۔۔۔ رائٹ۔۔۔۔۔"
عشفال نے ذیشان کے جانب رخ کر کے گویا تصدیق چاہی۔ "بلکل۔۔۔۔۔"
ذیش نے حمایت کرتے ہوئے عشفال کا ہاتھ تھام لیا۔ زاویہ دنگ رہ گئی تھی۔ اس سے ذیشان
کا عشفال کو اس پر فوقیت دینا گوارا نہ ہوا وہ عشفال پر وار کرنے آگے بڑھی پر
ذیشان تنے تاثرات بنائے عشفال کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا۔ "سوچنا بھی مت زاویہ شاہ۔۔۔۔۔۔ میں خود پر تمہارا
ٹارچر برداشت کر لیتا ہوں۔۔۔۔ لیکن عشفال کے لیے کبھی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔" اس
نے انگلی اٹھا کر اسے جھڑکا۔ ذیشان بھلے ہی خاموش مزاج تھا پر بات جب خود سے جڑی
عورت پر آتی تو وہ بھی جنون میں سفیان یا ارحام سے کم نہیں تھا۔ "تم چاہے جتنے بھی منگنیاں یا نکاح کر لو۔۔۔۔۔
پر بنو گے میرے ہی۔۔۔۔۔" زاویہ چیلنج کرنے کی طرح اس کے آنکھوں میں دیکھ کر غرائی
اور عشفال کو گھوری سے نوازتے لمبے ڈگ بھرتے آفس سے باہر نکل گئی۔ "کون تھی یہ۔۔۔۔" عشفال نے سینے پر ہاتھ
باندھے ذیشان سے سوال کیا۔ "بزنس
کولیگ ہے۔۔۔۔۔ زاویہ شاہ۔۔۔۔" اس نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے بے زاری سے تعارف
کروایا۔ "اتنا
چپک کیوں رہی تھی۔۔۔۔۔" محبت میں پہلا اصول ہی اپنے پیار کو کسی اور کے
دسترست میں دیکھ کر جیلس ہونا ہوتا ہے۔ "وہ
ہمیشہ مجھ سے اتنا ہی چپکتی ہے۔۔۔۔۔" وہ بحث ختم کرنا چاہتا تھا پر عشفال بار
بار سوال کیے جا رہی تھی۔ "اور
آپ چپکنے دیتے ہو۔۔۔۔" اب کی بار اس کی آواز شکستہ ہوگئی۔ لہجے میں شکوہ در آیا۔
"تم
میرے جانب سے بے فکر رہو۔۔۔۔۔۔" ذیش نے اپنی منکوحہ کا ممکنہ اندیشہ محسوس کر
کے اسے سمجھایا۔ "ذیشان۔۔۔۔۔
میں یہ نہیں کہتی مجھے دل میں رکھو یا سر کا تاج بنا لو۔۔۔۔۔ آپ چاہے مجھے اپنے قدموں
میں رکھو، لیکن جہاں مجھے رکھو۔۔۔۔۔ وہاں کم سے کم میرے جیتے جی کسی اور نہ رکھو۔۔۔۔
میں نہیں دیکھ پاوں گی۔۔۔۔" عشفال کی آنکھیں بھیگنے لگی تھی۔ وہ ذیشان کی زندگی
میں کسی اور کو سوچ کر بھی سہم گئی۔ کبھی کسی کے سامنے کمزور نہ پڑنے والی وہ مضبوط
لڑکی آج محبت کے آگے مجبور ہو گئی۔ ذیشان نے اسے اپنے حصار میں لے لیا اور اس کا
سر سینے سے لگا لیا تھا۔ عشفال نے اس کے گرد بازو مائل کر کے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا۔
- Download in pdf form and online reading.
- Click on the link given below to Free download 654 Pages Pdf
- It's Free Download Link